Pages

Aj ke bey Hes Hukmaranon key Naam

STORY OF A CASE

سعودی عرب کے شہر قصیم کی شرعی عدالت نے اپنی تاریخ میں ایسا عجیب و غریب مقدمہ دیکھا جو کہ قصیم بلکہ پوری مملکت سعودی عرب میں نا ہی پہلے کبھی دیکھا یا سنا گیا تھا۔۔۔

ہم آئے دن خاندانی اختلافات، قطع رحمی اور عناد کی بھینٹ چڑھنے والے افسوس ناک واقعات اور دلوں کو لرزا دینے واقعات کی تفاصیل تو پڑھتے، سنتے اور دیکھتے ہی رہتے ہیں مگر صلہ رحمی کی بنیاد پر بننے والے اس مقدمہ کی تفاصیل سنیئے اور اس واقعہ کو

کسوٹی بنا کر اپنے آپ کو یا اپنے گردو نواح میں وقوع پذیر حالات و واقعات کو پرکھیئے۔۔۔

اس شخص کا نام حیزان الفہیدی الحربی ہے۔ یہ بریدہ سے 90 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایک گاؤں (اسیاح) کا رہنے والا ہے۔ قصیم کی شرعی عدالت میں فیصلہ جیسے ہی اس کے خلاف گیا تو اس نے خود تو رو رو کر اپنی داڑھی کو آنسوؤں سے تر بتر کیا ہی، مگر اس کو دیکھنے والے والے لوگ بھی رو پڑے۔
آخر کس بات پر یہ زاروقطار رونا اور غش پڑ جانا؟ اولاد کی بے رخی؟ خاندانی زمین سے بے دخلی؟ حیزان کی بیوی نے اُس پرخلع کا دعویٰ کیا؟ نہیں، ایسا تو کچھ بھی نہیں ہوا تو پھر آخر کس بات کا رونا!! یہ قصہ تصوراتی نہیں بلکہ سچا اور حقیقت پر مبنی ہے جس کی تفاصیل سعودی عرب کے ایک بڑے اخبار (الریاض) کے سرورق پر چھپیں، مملکت کی کئی بڑی مساجد کے منابر سے آئمہ کرام نے اپنے خطابات میں اس واقعے کا ذکر کیا، سینکڑوں عربی ویب سائٹس اور فورمز پر لوگوں کی آنکھیں کھولنے والے اس واقعہ کی تلخیص آپ کیلے حاضر ہے۔

حیزان اپنی ماں کی بڑا بیٹا ہے، اکیلا ہونے کی وجہ سے سارا وقت اپنی ماں کی خدمت اور نگہداشت پر صرف کرتا تھا۔ حیزان کی ماں ایک بوڑھی اور لاچار عورت جس کی کل ملکیت پیتل کی ایک انگوٹھی، جسے بیچا جائے تو کوئی سو روپے بھی دینے پر نا آمادہ ہو۔

سب کچھ ٹھیک جا رہا تھا کہ ایک دن دوسرے شہر سے حیزان کے چھوٹے بھائی نے آکر مطالبہ کر ڈالا کہ میں ماں کو ساتھ لے کر جانا چاہتا ہوں تاکہ وہ شہر میں میرے خاندان کے ساتھ رہ سکے۔ حیزان کو اپنے چھوٹے بھائی کا اس طرح آکر ماں کو شہر لے جانے کا ارادہ بالکل پسند نا آیا، اس نے اپنے بھائی کو سختی سے منع کیا کہ وہ ایسا نہیں کرنے دے گا، ابھی بھی اس کے اندر اتنی ہمت ، سکت اور استطاعت ہے کہ وہ ماں کی مکمل دیکھ بھال اور خدمت کر سکتا ہے۔

دونوں بھائیوں کے درمیان تو تکار زیادہ بڑھی تو انہوں نے معاملہ عدالت میں لے جانے کا فیصلہ کیا گیا، مگر معاملہ عدالت میں جا کر بھی جوں کا توں ہی رہا، دونوں بھائی اپنے موقف سے دستبردار ہونے پر آمادہ نہیں ہوتے تھے اور عدالت پیشیوں پر پیشیاں دیتی رہی تاکہ وہ دونوں کس حتمی نتیجے پر پہنچ سکیں۔ مگر یہ سب کچھ بے سود رہا۔

مقدمے کی طوالت سے تنگ آ کر قاضی نےآئندہ پیشی پر دونوں کو اپنی ماں کو ساتھ لے کر آنے کیلئے کہا تاکہ وہ اُن کی ماں سے ہی رائے لے سکے کہ وہ کس کے ساتھ رہنا زیادہ پسند کرے گی؟
اگلی پیشی پر یہ دونوں بھائی اپنی ماں کو ساتھ لے کر آئے، اُنکی ماں کیا تھی محض ہڈیوں کا ایک ڈھانچہ، بڑھیا کا وزن بیس کلو بھی نہیں بنتا تھا۔

قاضی نے بڑھیا سے پوچھا کہ کیا وہ جانتی ہے کہ اُس کے دونوں بیٹوں کے درمیان اُسکی خدمت اور نگہداشت کیلئے تنازع چل رہا ہے؟ دونوں چاہتے ہیں کہ وہ اُسے اپنے پاس رکھیں! ایسی صورتحال میں وہ کس کے پاس جا کر رہنا زیادہ پسند کرے گی؟

بڑھیا نے کہا، ہاں میں جانتی ہوں مگر میرے لیئے کسی ایک کے ساتھ جا کر رہنے کا فیصلہ کرنا بہت مشکل ہے۔ اگر حیزان میری ایک آنکھ کی مانند ہے تو اسکا چھوٹا بھائی میری دوسری آنکھ ہے۔

قاضی صاحب نے معاملے کو ختم کرنے کی خاطر حیزان کے چھوٹے بھائ کی مادی اور مالی حالت کو نظر میں رکھتے ہوئے مقدمے کا فیصلہ اُس کے حق میں کر دیا۔

جی ہاں، تو یہ وجہ تھی حیزان کے اس طرح ڈھاڑیں مار مار کر رونے کی۔ کتنے قیمتی تھے حیزان کے یہ آنسو! حسرت کے آنسو ، کہ وہ اپنی ماں کی خدمت کرنے پر قادر کیوں نہیں مانا گیا؟ اتنا عمر رسیدہ ہونے کے باوجود بھی ماں کی خدمت کرنے کو سعادت حاصل کرنے کیلئے یہ جدوجہد؟ شاید بات حیزان کی نہیں، بات تو اُن والدین کی ہے جنہوں نے حیزان جیسے لوگوں کی تربیت کی اور اُنہیں برالوالدین کی اہمیت اور عظمت کا درس دیا۔

داستانِ حرم (حصہ دوئم)


داستانِ حرم (حصہ دوئم)


حضرت ابوذر غفاری کے اس جواب پر صحابہ آب دیدہ ہوگئے اور ان کا اضطراب بڑھ گیا، صحابہ نے بڑی لجاجت کے ساتھ نو عمر مدعیوں سے کہا۔ تم خون بہا قبول کر لو۔ مدعیوں نے جواب دیا ، ہم خون کا بدلہ خون چاہتے ہیں۔
امید و بیم کا یہی عالم تھا کہ سامنے اڑتا ہوا غبار نظر آیا ، گرد ہٹی تو پسینے میں شرابور مجرم (نوجوان) کھڑا تھا، حاضرین کی آنکھیں حیرت سے کھلی کی کھلی رہ گئیں، امیر المؤمنین نے نوجوان سے مخاطب ہو کر فرمایا:
سزا تمہیں بعد میں دی جائے گی پہلے ایک بات بتاؤ، تمہیں تین دن کی مہلت دی گئی ، تمہارا پتہ نشان بھی کسی کو نہیں معلوم تھا، سزائے موت سے بچنے کے لئے تم فرار بھی ہوسکتے تھے پھر ایسا کیوں نہیں کیا؟
نوجوان مجرم نے بھیگی پلکوں کے سائے میں کھڑے ہو کر جواب دیا ۔
امیر المؤمنین میں فرار ہو کر کہاں جاتا؟ یہاں دنیامیں نہ سہی آخرت میں سزا مل جاتی۔ لیکن قیامت تک اسلام کے دشمن یہ طعنہ دیتے کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلام (معاذ اللہ) عہد شکن ہوتے ہیں، اس لئے میں نے سوچا کہ زمین پر میرے خون کا دھبہ چند دنوں کے بعد مٹ جائے گا، لیکن عہد شکنی کا دھبہ اسلام کے دامن پر ہمیشہ کے لئے نمایاں رہے گا۔
نوجوان کے اس بیان پر لوگوں کے دل بھر آئے ، آنکھیں اشکبار ہو گئیں اور اسلام کی اس رقت انگیز محبت پر صحابہ کرام کا پیمانہ دردلبریز ہو گیا۔
اب امیر المؤمنین حضرت ابوذر غفاری سے مخاطب تھے۔ ابو ذر! آپ نے بغیر سوچے سمجھے ایک ایسے شخص کی ضمانت دے دی جس کے ساتھ نہ آپ کی کوئی شناسائی تھی ، نہ اس کے پتہ و نشان سے آپ واقف تھے ۔ ایک رہگیر پردیسی کی سزائے موت کا بار آپ نے اپنے سر لے کراتنا المناک اقدام کیوں کیا تھا؟ اگر خدانخواستہ وہ نہ آتا تو آج ابو ذر کے غم میں مدینہ کا کیا حال ہوتا؟
حضرت ابو ذر غفاری بے تاب ہو کر کھڑے ہوئے اور عرض کی ۔ امیر المؤمنین! ایک ابو ذر نہیں ! ایک ہزار ابوذر مدنی سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ادائے رحمت پر قربان ۔۔۔۔۔
ایک غریب الوطن مجرم ، تاجدارِ کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلاموں کے درمیان کھڑا پناہ ڈھونڈ رہا تھا۔ اس کے چہرے کی افسردگی اور نگاہوں کا یاس مجھ سے نہ دیکھا گیا۔ میں نے سوچا ! وقت کا قافلہ گزر جائے گا نشانِ قدم باقی رہے گا۔ کہیں آنے والی دنیا یہ نہ کہہ دے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلاموں میں اتنی بھی غمگساری کا جذبہ نہ تھا کہ اپنے ہی ایک بھائی کو تین دن کے لئے پناہ دے دیتے۔
امیر المؤمنین ! کیا یہ طعنہ کہ مدینے کی بھری آبادی میں ایک غریب الوطن مجرم کو کوئی ضامن نہ مل سکا ، ہمیں مر جانے کے لئے کافی نہ تھا؟ ہم ضامن نہ ہوتے جب بھی آج ہماری موت کا دن تھا۔ حضرت ابوذر غفاری جواب دے کر جونہی بیٹھے ، دونوں مدعی کھڑے ہوگئے۔
امیر المؤمنین! تاریخِ اسلام کی شاہراہ روشن کرنے مٰیں ہم کسی سے پیچھے نہیں رہنا چاہتے ، ہم بھی یہ نہیں برداشت کر سکتے کہ آنے والا مؤرخ مدنی سرکار کے غلاموں کو یہ طعنہ دے کہ ان میں اتنا بھی جذبہء رحم نہیں تھا کہ واپس لوٹ کر آنے والے مجرم کو معاف کر دیتے۔
امیر المؤمنین ! گواہ رہیے ، کہ ہم اپنے باپ کے خون کا دعویٰ واپس لیتے ہیں اور دل کی اتھاہ گہرائیوں سے اپنے پردیسی مسلمان بھائی کو معاف کرتے ہیں، مدعی ابھی بیان دے ہی رہے تھے کہ عدالتِ فاروقی ، مبارک باد کے شور سے گونج اٹھی، ہر آنکھ خوشی میں پُرنم تھی ، ہر چہرہ شگفتہ تھا ، ہر نظر مخمور تھی اور ہر دل بادہ مسرت میں سر شار تھا۔ لیکن وقت کا کارواں یہ درد انگیز نظارہ دیکھ کر حیران تھا ۔ حیرت میں دیکھتا چلا گیا اور سوچنے لگا کیا وہ وقت پھر پلٹ کر نہیں آسکے گا؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
ردائے لالہ و گل پردہء مہ و انجم
جہاں جہاں وہ چھپے ہیں عجیب عالم ہے

داستانِ حرم ( حصہ اول )


حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا دربارِ خلافت کھلا ہوا تھا ، مقدمات پیش ہو رہے تھے ، مظلوموں کی داد رسی کا سلسلہ جاری تھا کہ ناگہاں ایک خوبصورت نوجوان کو دو طاقتور آدمی پکڑے ہوئے لائے اور فریاد کی۔
اے امیر المؤمنین! اس ظالم سے ہمارا حق دلوایا جائے۔ یہ ہمارے بوڑھے باپ کا قاتل ہے۔ امیر المؤمنین نے خوبصورت نوجوان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا۔ تم صفائی میں جو کچھ کہنا چاہتے ہو کہہ سکتے ہو۔
نوجوان نے بیان دیا! میرا اونٹ ایک باغ میں چلا گیا ، باغ کے بوڑھے مالک نے پتھر مار کر میرے اونٹ کی آنکھ پھوڑ دی، میں نے طیش میں پتھر کھینچ کر اسے مارا ۔ میرا ارادہ اس کے قتل کا نہیں تھا لیکن میری شامت سے وہ مر گیا۔
امیر المؤمنین نے فیصلہ صادر کرتے ہوئے فرمایا چونکہ تم نے اقبال جرم کرلیا ، اس لئے اسلام کے قانون تعزیرات کے مطابق تم سے قصاص لیا جائے گا۔ خون کا بدلہ خون!
نوجوان نے کہا ۔ اسلام کے قانون اور عدالت کے سامنے میں اپنا سرِ تسلیم خم کرتا ہوں لیکن اتنی بات عرض کرنے کی اجازت چاہتا ہوں کہ میرا ایک نابالغ بھائی ہے ۔ باپ نے مرتے وقت اس کے حصے کا سونا میرے حوالے کیا تھا، میں نے اسے ایک ایسے جگہ دفن کیا ہے جس کا میرے علاوہ کسی کو علم نہیں ہے، اگر میں سونا اس کے حوالے نہ کرسکا تو قیامت کے دن اپنے باپ کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہوں گا اس لئے مجھے تین دن کی مہلت دی جائے ، میں اپنے فرض سے سبکدوش ہو کر واپس آجاؤں تو مجھ پر قصاص جاری کیا جائے۔
امیر المؤمنین نے تھوڑی دیر غور کرنے کے بعد فرمایا۔ عدالت کے سامنے اپنا ضامن پیش کرو۔ نوجوان نے حاضرین مجلس پر ایک امید بھری نگاہ ڈالی۔ ساری مجلس میں کوئی بھی اس کا شناسا نہ تھا، مایوس ہو کر بیٹھ گیا۔ اتنے میں ایک صحابئ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور آواز دی۔ امیر المؤمنین ! میں اس نوجوان کا ضامن ہوں اسے تین دن کی مہلت پر رہا کر دیا جائے۔ ایک جلیل القدر صحابی کی ضمانت پر نوجوان کو رہا کر دیا گیا۔
آج تیسرا دن تھا ۔ دربارِ خلافت کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ دونوں مدعی بھی حاضر تھے، حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے۔ لیکن نوجوان ابھی تک پلٹ کر نہیں آیا تھا، جوں جوں انتظار کا لمحہ گزرتا جاتا تھا لوگوں کی تشویش بڑھتی جاتی تھی۔
مدعیوں نے کہا : ابوذر! ہمارا مجرم کہاں ہے؟ جواب دیا تیسرے دن کا پورا حصہ جب تک نہ گز جائے اس کا انتظار کرو۔ اگر وہ وقت مقررہ پر نہیں آیا تو قصاص کے لئے میری گردن حاضر ہے۔(جاری ہے)

حضرت خزیمہ رضی اللہ عنہ کی گواہی

حضرت خزیمہ رضی اللہ عنہ کی گواہی

سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک اعرابی سے گھوڑا خریدا ، خرید و فروخت کے وقت اعرابی اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے علاوہ کوئی اور موجود نہیں تھا ، اعرابی گھوڑا بیچنے کے بعد مکر گیا ، جب لوگوں کو علم ہوا تو سب نے اعرابی کو سمجھایا کہ تیری نیت خراب ہوگئی ہے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی زبان سے سچ کے سوا دوسری بات نہیں نکل سکتی ، اس نے جواب دیا اگر سچ ہے تو گواہ پیش کریں ۔
             لیکن صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے خرید و فروخت کے وقت کوئی بھی وہاں موجود نہ تھا اس لئے گواہی نہ دے سکے ۔ اتنے میں کہیں سے 
حضرت خزیمہ رضی اللہ عنہ آگئے ، انہوں نے اعرابی کو مخاطب کر کے کہا میں گواہی دیتا ہوں کہ تو نے اپنا گھوڑا سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے ہاتھ پر فروخت کیا ہے ، اعرابی خاموش ہوگیا اور گھوڑا حوالے کرنا پڑا ۔
          سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  حضرت خزیمہ کی طرف متوجہ ہوئے اور دریافت فرمایا ۔ خزیمہ ! تم واقعہ کے وقت موجود ہی نہیں تھے ، تم نے شہادت کیسے دی؟
         حضرت خزیمہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا ، یارسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم آپ کی زبان حق ترجمان سے سن کر جب ہم آسمان کی خبر پر شہادت دیتے ہیں تو زمین کی خبر پر ہمیں شہادت دینے میں کیا تامل ہو سکتا ہے، یقین کا چشمہ ء حقیقی آپ کی زبان مبارک ہے ، ہماری آنکھ نہیں!
       سرکار سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  یہ جواب سن کر بے حد مسرور ہوئے اور انعام خسروانہ کے طور پر فرمایا کہ خزیمہ اکیلے کی گواہی دو آدمیوں کی گواہی کے برابر ہے اور پھر اس دن سے یہ قانون بن گیا کہ حضرت خزیمہ کی ایک گواہی دو گواہوں کے برابر ہے۔

ابھی وقت ہے۔۔۔


ابھی وقت ہے۔۔۔

           پرانے وقتوں کی بات ہے ایک شخص کے پاس کافی سارا مال و دولت جمع ہو گیا ۔ اس وقت چونکہ بنک یا مال و دولت رکھنے والے اداروں کا تصور نہیں تھا لہذا اس شخص نے  اپنا سارا مال جو کہ درہم و دنانیر پر مشتمل تھا اپنے گھر کے صحن میں تھوڑا تھوڑا کر کے مختلف جگہوں پر چھپا دیا ، ایک دن جب وہ شہر گھریلو سامان خریدنے کی غرض سے جانے لگا تو اس نے ایک جگہ سے کچھ درہم نکالے اور شہر کی جانب روانہ ہو گیا اور اس نے یہ بھی دھیان نہ کیا کہ اس نے جو درہم سامان خریدنے کے لیے نکالے ہیں ان میں کچھ کھوٹے بھی ہیں ، وہ اپنی ہی لگن میں شہر پہنچا اور دوکان سے اپنا مطلوبہ سامان خریدا ، جب رقم کی ادائیگی کر کے وہ شخص واپس جانے لگا تو دوکاندار نے آو دیکھا نا تاو لگے اس کی پٹائی کرنے ، بس پھر کیا تھا ادھر ادھر جتنے لوگ تھے سب نے ثواب کا کام 
 
سمجھتے ہوئے اسے مارنا شروع کر دیا اچانک ایک سمجھدار شخص کا وہاں سے گذر ہوا اس نے مارنے والوں سے دریافت کیا کہ آپ اس شخص کی پٹائی کیوں کر رہے ہیں، سب نے کہا کہ یہ دوکاندار اس کی پٹائی کر رہا تھا تو ہم نے بھی اس کی پٹائی کرنا شروع کر دی ، پھر اس سمجھدار شخص نے دوکاندار سے استفسار کیا کہ معاملہ کیا ہے اس شخص کو کیوں مار رہے ہو ، دوکاندار نے جواب دیا اس شخص نے مجھ سے سامان خریدا اور جب پیسے دینے کی باری آئی تو کھوٹے درہم دے کر جا رہا تھا ، سمجھدار شخص بولا جب آپ کو علم ہو گیا تھا کہ درہم کھوٹے ہیں تو آپ اس شخص کو سامان نہ دیتے اور معمولی سی سرزنش کر کے چلتا کرتے اتنی مار پیٹ اور پھر ان سارے لوگوں کی حصے داری اس کا کیا جواز بنتا تھا ۔ دوکاندار کو اپنے کیے پر شرم محسوس ہوئی اور باقی لوگوں کو بھی اپنی غلطی کا احساس ہوا سب لوگ اپنے اپنے کاموں کی طرف متوجہ ہوگئے ، سمجھدار آدمی بھی جانے لگا تو اس نے دیکھا کہ وہ شخص جس کی سب نے پٹائی کی تھی ابھی بھی وہاں بیٹھا رو رہا تھا اس نے پوچھا بھائی اب روتے کیوں ہو، تو اس شخص نے جواب دیا بھائی آخرت کی یاد آ گئی تھی درہم کھوٹے نکلے مار بھی پڑی اور سامان بھی نہیں ملا گھر جاوں گا کھرے درہم لے آوں گا اور سودا دوبارہ لے جاؤں  گا لیکن اگر آخرت میں عمل کھوٹے نکلے تو پھر کیا کرونگا؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

مختلف اذکار کی فضیلت


مختلف اذکار کی فضیلت

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو شخص ایک دن میں سو مرتبہ سبحان اللہ وبحمدہ پڑھے تو اس کی خطائیں معاف کی جاتی ہیں اگرچہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہوں (مشکوہ المصابیح ، کتاب الدعوات)

ایک روایت میں ہے کہ ایک شخص حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا کہ دنیا نے مجھ سے منہ پھیر لیا ہے اور میرا مال گم ہو گیا ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تو فرشتوں کی نماز اور مخلوق کی تسبیح کیوں نہیں پڑھتا جس کے سبب انہیں رزق ملتا ہے وہ شخص کہتے ہیں میں نے عرض کیا یارسول اللہ ! وہ کیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : طلوع فجر اور نماز فجر کے درمیان ایک سو مرتبہ یوں پڑھو ۔۔۔ سبحان اللہ العظیم استغفر اللہ (اللہ عظمت والے کی پاکیزگی بیان کرتا ہوں اور اللہ تعالٰی سے بخشش چاہتا ہوں) دنیا تیرے سامنے ذلیل و رسوا ہو کر آئے گی اور اللہ تعالٰی ہر کلمہ سے ایک فرشتہ پیدا کرے گا جو قیامت تک اللہ تعالٰی کی تسبیح بیان کرے گا اور اس کا ثواب تمہیں ملے گا۔

حضرت رفاعہ زرقی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک دن ہم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے جب آپ نے رکوع سے سر اٹھایا اور سَمِعَ اللہُ لِمَن حَمِدَہ کہا تو پیچھے سے ایک آدمی نے کہا رَبنا لک الحمدُ حَمدا کثیرا طیبا مبارکا (اے ہمارے رب ! تیرے لیے تعریف ہے بہت تعریف جو پاکیزہ اور مبارک ہے ) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سلام پھیرنے کے بعد بوچھا ابھی کس نے کلام کیا تھا؟ انہوں نے عرض کیا یارسول اللہ! میں نے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں نے تیس سے زائد فرشتوں کو دیکھا وہ ایک دوسرے سے جلدی کر رہے تھے کہ کون اسے پہلے لکھے (صحیح بخاری ، باب فضل اللہم ربنا لک الحمد)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : دو کلمے زبان پر آسان ، میزان میں بھاری اور رحمٰن (اللہ عزوجل) کے نزدیک پسندیدہ ہیں سبحان اللہ و بحمدہ سبحان اللہ العظیم (الترغیب والترہیب)

HOLY QUR'AN



تلاوت قرآن پاک

رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
             تم میں سے بہترین انسان وہ ہے جو قرآن سیکھے اور دوسروں کو سکھائے۔ ( صحیح بخاری)

رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
              میری امت کی بہترین عبادت ، تلاوت قرآن پاک ہے۔(کنز العمال)

 رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
                     قرآن پاک (پڑھنے) والے لوگ اللہ تعالی سے تعلق رکھنے والے اور اس کے خاص بندے ہیں۔ (کنز العمال)

     رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
     بے شک اللہ تعالی نے مخلوق کو پیدا کرنے سے ایک ہزار سال پہلے سورہ طہ اور سورہ یسین پڑھی جب فرشتوں نے قرآن پاک سنا تو کہا اس امت کو مبارک ہو جن پر یہ قرآن نازل ہو گا وہ سینے مبارک باد کے مستحق ہیں جو اسے اٹھائیں گے اور ان زبانوں کو مبارک ہو جن پر یہ جاری ہو گا۔ (مجمع الزوائد)



  حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے فرمایا : قرآن پاک کی ہر آیت جنت کی ایک سیڑھی اور تمہارے گھروں کا چراغ ہے۔

  حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جس گھر میں قرآن پاک کی تلاوت کی جائے وہ اہل خانہ پر کشادہ ہو جاتا ہے اس میں بھلائی زیادہ ہوتی ہے (برکت ہوتی ہے) وہاں فرشتے آتے ہیں اور شیطان وہاں سے نکل جاتے ہیں اور جس گھر میں قرآن نہ پڑھا جائے وہ گھر اپنے اہل پر تنگ ہو جاتا ہے ، اس میں برکت کم ہوتی ہے اور فرشتے وہاں سے چلے جاتے ہیں جب کہ شیطان وہاں آجاتے ہیں۔

   حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : جب انسان قرآن پڑھتا ہے تو فرشتہ اس کی دونوں آنکھوں کے سامنے بوسہ دیتا ہے۔
    
     حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ الکریم نے فرمایا : تین چیزیں حافظہ کو تیز کرتی ہیں
(١) مسواک (٢) روزہ اور (٣) قرآن پاک پڑھنا ۔۔۔۔۔

نیت صادق

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 
انما الاعمال بالنیات۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الخ (الحدیث)
 اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے یعنی جیسی نیت ویسی مراد
بحیثیت مسلمان ہم میں سے ہر شخص اس بات سے بخوبی آگاہ ہے اور قرآن و سنت میں بھی ہمیں اسی بات کی تعلیم اور تلقین کی گئی ہے کہ ہر نیک کام میں اخلاص اور رضائے الٰہی کے حصول کو مدنظر رکھا جائے
لٰہذا ہر حال میں نیت کا قبلہ درست رکھا چاہئے۔ اور مذکورہ بالا حدیث پاک سے یہ تو ثابت ہے کہ اعمال کا اخروی ثواب صدق نیت پر موقوف ہے کہ بغیر اس کے کوئی بھی عمل کیا جائے ثواب حاصل نہیں ہو گا انما لکل امرئ ما نوی کی تحقیق سے یہ ظاہر ہوا کہ صدق نیت پر بھی انسان کو اللہ تعالٰی ثواب عطا فرماتا ہے ،

بنی اسرائیل کے ایک شخص کا بھوک کی حالت میں ریت کے ٹیلوں کے پاس سے گذر ہوا، ٹیلوں کو دیکھ کر دل میں کہنے لگا کہ اگر ان ٹیلوں کے برابر میرے پاس غلہ ہوتا تو میں رضائے الٰہی کے حصول کی غرض سے سب کا سب لوگوں میں تقسیم کر دیتا اس دور (عہد) کے نبی کے پاس وحی آئی کہ اس شخص سے فرما دیجئے کہ اللہ تعالٰی نے تمہارا صدقہ قبول فرما لیا ہے اور تم کو نیت صادق کی بنا پر ٹیلوں کے برابر غلہ صدقہ کرنے کا ثواب عطا ہوا (احیاء العلوم)

غزوہ تبوک میں ارشاد ہوا کہ مدینہ طیبہ میں کچھ لوگ رہ گئے ہیں جو اس سفر کے تمام اعمال میں ثواب کے لحاظ سے ہمارے ساتھ برابر کے شریک ہیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا ، یارسول اللہ وہ لوگ ثواب میں ہمارے ساتھ کیسے شریک ہوگئے حالانکہ وہ ہمارے ساتھ نہیں ہیں فرمایا کچھ مجبوریاں تھیں جنہوں نے ان لوگوں کو ہمارے ساتھ نہ آنے دیا مگر صدق نیت کی بنا پر ثواب میں وہ ہمارے شریک ہو گئے۔

HAPPY RAMADAN

بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمہ اللہ و برکاتہ !!!!!!
میری جانب سے آپ تمام احباب کو ماہِ صیام کی آمد بہت بہت مبارک ہو اللہ سبحانہ و تعالٰی ہمیں اس عظمتوں اور رفعتوں والے ماہِ مبارک کا احترام اور اس کی رحمتوں اور برکتوں سے اپنے دامنوں کو لبریز کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اللہ تعالٰی نے فرمایا : بنی آدم کا ہر عمل اسی کے لیے ہے سوائے روزہ کے ۔ روزہ صرف میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دیتا ہوں اور روزہ ڈھال ہے اور جس روز تم میں سے کوئی روزہ سے ہو تو نہ فحش کلامی کرے اور نہ جھگڑے اور اگر اسے (روزہ دار کو) کوئی گالی دے یا لڑے تو وہ یہ کہہ دے کہ میں روزہ سے ہوں ۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضئہ قدرت میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جان ہے : روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کو مشک سے زیادہ پیاری ہے ۔ روزہ دار کے لئے دو خوشیاں ہیں ، جن سے اسے فرحت ہوتی ہے: ایک (فرحتِ افطار) جب وہ روزہ افطار کرتا ہے ، اور دوسری (فرحتِ دیدار) کہ جب وہ اپنے رب سے ملاقات کرے گا تو اپنے روزہ کے باعث خوش ہو گا۔ متفق علیہ