Pages

داستانِ حرم ( حصہ اول )


حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا دربارِ خلافت کھلا ہوا تھا ، مقدمات پیش ہو رہے تھے ، مظلوموں کی داد رسی کا سلسلہ جاری تھا کہ ناگہاں ایک خوبصورت نوجوان کو دو طاقتور آدمی پکڑے ہوئے لائے اور فریاد کی۔
اے امیر المؤمنین! اس ظالم سے ہمارا حق دلوایا جائے۔ یہ ہمارے بوڑھے باپ کا قاتل ہے۔ امیر المؤمنین نے خوبصورت نوجوان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا۔ تم صفائی میں جو کچھ کہنا چاہتے ہو کہہ سکتے ہو۔
نوجوان نے بیان دیا! میرا اونٹ ایک باغ میں چلا گیا ، باغ کے بوڑھے مالک نے پتھر مار کر میرے اونٹ کی آنکھ پھوڑ دی، میں نے طیش میں پتھر کھینچ کر اسے مارا ۔ میرا ارادہ اس کے قتل کا نہیں تھا لیکن میری شامت سے وہ مر گیا۔
امیر المؤمنین نے فیصلہ صادر کرتے ہوئے فرمایا چونکہ تم نے اقبال جرم کرلیا ، اس لئے اسلام کے قانون تعزیرات کے مطابق تم سے قصاص لیا جائے گا۔ خون کا بدلہ خون!
نوجوان نے کہا ۔ اسلام کے قانون اور عدالت کے سامنے میں اپنا سرِ تسلیم خم کرتا ہوں لیکن اتنی بات عرض کرنے کی اجازت چاہتا ہوں کہ میرا ایک نابالغ بھائی ہے ۔ باپ نے مرتے وقت اس کے حصے کا سونا میرے حوالے کیا تھا، میں نے اسے ایک ایسے جگہ دفن کیا ہے جس کا میرے علاوہ کسی کو علم نہیں ہے، اگر میں سونا اس کے حوالے نہ کرسکا تو قیامت کے دن اپنے باپ کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہوں گا اس لئے مجھے تین دن کی مہلت دی جائے ، میں اپنے فرض سے سبکدوش ہو کر واپس آجاؤں تو مجھ پر قصاص جاری کیا جائے۔
امیر المؤمنین نے تھوڑی دیر غور کرنے کے بعد فرمایا۔ عدالت کے سامنے اپنا ضامن پیش کرو۔ نوجوان نے حاضرین مجلس پر ایک امید بھری نگاہ ڈالی۔ ساری مجلس میں کوئی بھی اس کا شناسا نہ تھا، مایوس ہو کر بیٹھ گیا۔ اتنے میں ایک صحابئ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور آواز دی۔ امیر المؤمنین ! میں اس نوجوان کا ضامن ہوں اسے تین دن کی مہلت پر رہا کر دیا جائے۔ ایک جلیل القدر صحابی کی ضمانت پر نوجوان کو رہا کر دیا گیا۔
آج تیسرا دن تھا ۔ دربارِ خلافت کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ دونوں مدعی بھی حاضر تھے، حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے۔ لیکن نوجوان ابھی تک پلٹ کر نہیں آیا تھا، جوں جوں انتظار کا لمحہ گزرتا جاتا تھا لوگوں کی تشویش بڑھتی جاتی تھی۔
مدعیوں نے کہا : ابوذر! ہمارا مجرم کہاں ہے؟ جواب دیا تیسرے دن کا پورا حصہ جب تک نہ گز جائے اس کا انتظار کرو۔ اگر وہ وقت مقررہ پر نہیں آیا تو قصاص کے لئے میری گردن حاضر ہے۔(جاری ہے)