داستانِ حرم (حصہ دوئم)
حضرت ابوذر غفاری کے اس جواب پر صحابہ آب دیدہ ہوگئے اور ان کا اضطراب بڑھ گیا، صحابہ نے بڑی لجاجت کے ساتھ نو عمر مدعیوں سے کہا۔ تم خون بہا قبول کر لو۔ مدعیوں نے جواب دیا ، ہم خون کا بدلہ خون چاہتے ہیں۔
امید و بیم کا یہی عالم تھا کہ سامنے اڑتا ہوا غبار نظر آیا ، گرد ہٹی تو پسینے میں شرابور مجرم (نوجوان) کھڑا تھا، حاضرین کی آنکھیں حیرت سے کھلی کی کھلی رہ گئیں، امیر المؤمنین نے نوجوان سے مخاطب ہو کر فرمایا:
سزا تمہیں بعد میں دی جائے گی پہلے ایک بات بتاؤ، تمہیں تین دن کی مہلت دی گئی ، تمہارا پتہ نشان بھی کسی کو نہیں معلوم تھا، سزائے موت سے بچنے کے لئے تم فرار بھی ہوسکتے تھے پھر ایسا کیوں نہیں کیا؟
نوجوان مجرم نے بھیگی پلکوں کے سائے میں کھڑے ہو کر جواب دیا ۔
امیر المؤمنین میں فرار ہو کر کہاں جاتا؟ یہاں دنیامیں نہ سہی آخرت میں سزا مل جاتی۔ لیکن قیامت تک اسلام کے دشمن یہ طعنہ دیتے کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلام (معاذ اللہ) عہد شکن ہوتے ہیں، اس لئے میں نے سوچا کہ زمین پر میرے خون کا دھبہ چند دنوں کے بعد مٹ جائے گا، لیکن عہد شکنی کا دھبہ اسلام کے دامن پر ہمیشہ کے لئے نمایاں رہے گا۔
نوجوان کے اس بیان پر لوگوں کے دل بھر آئے ، آنکھیں اشکبار ہو گئیں اور اسلام کی اس رقت انگیز محبت پر صحابہ کرام کا پیمانہ دردلبریز ہو گیا۔
اب امیر المؤمنین حضرت ابوذر غفاری سے مخاطب تھے۔ ابو ذر! آپ نے بغیر سوچے سمجھے ایک ایسے شخص کی ضمانت دے دی جس کے ساتھ نہ آپ کی کوئی شناسائی تھی ، نہ اس کے پتہ و نشان سے آپ واقف تھے ۔ ایک رہگیر پردیسی کی سزائے موت کا بار آپ نے اپنے سر لے کراتنا المناک اقدام کیوں کیا تھا؟ اگر خدانخواستہ وہ نہ آتا تو آج ابو ذر کے غم میں مدینہ کا کیا حال ہوتا؟
حضرت ابو ذر غفاری بے تاب ہو کر کھڑے ہوئے اور عرض کی ۔ امیر المؤمنین! ایک ابو ذر نہیں ! ایک ہزار ابوذر مدنی سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ادائے رحمت پر قربان ۔۔۔۔۔
ایک غریب الوطن مجرم ، تاجدارِ کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلاموں کے درمیان کھڑا پناہ ڈھونڈ رہا تھا۔ اس کے چہرے کی افسردگی اور نگاہوں کا یاس مجھ سے نہ دیکھا گیا۔ میں نے سوچا ! وقت کا قافلہ گزر جائے گا نشانِ قدم باقی رہے گا۔ کہیں آنے والی دنیا یہ نہ کہہ دے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلاموں میں اتنی بھی غمگساری کا جذبہ نہ تھا کہ اپنے ہی ایک بھائی کو تین دن کے لئے پناہ دے دیتے۔
امیر المؤمنین ! کیا یہ طعنہ کہ مدینے کی بھری آبادی میں ایک غریب الوطن مجرم کو کوئی ضامن نہ مل سکا ، ہمیں مر جانے کے لئے کافی نہ تھا؟ ہم ضامن نہ ہوتے جب بھی آج ہماری موت کا دن تھا۔ حضرت ابوذر غفاری جواب دے کر جونہی بیٹھے ، دونوں مدعی کھڑے ہوگئے۔
امیر المؤمنین! تاریخِ اسلام کی شاہراہ روشن کرنے مٰیں ہم کسی سے پیچھے نہیں رہنا چاہتے ، ہم بھی یہ نہیں برداشت کر سکتے کہ آنے والا مؤرخ مدنی سرکار کے غلاموں کو یہ طعنہ دے کہ ان میں اتنا بھی جذبہء رحم نہیں تھا کہ واپس لوٹ کر آنے والے مجرم کو معاف کر دیتے۔
امیر المؤمنین ! گواہ رہیے ، کہ ہم اپنے باپ کے خون کا دعویٰ واپس لیتے ہیں اور دل کی اتھاہ گہرائیوں سے اپنے پردیسی مسلمان بھائی کو معاف کرتے ہیں، مدعی ابھی بیان دے ہی رہے تھے کہ عدالتِ فاروقی ، مبارک باد کے شور سے گونج اٹھی، ہر آنکھ خوشی میں پُرنم تھی ، ہر چہرہ شگفتہ تھا ، ہر نظر مخمور تھی اور ہر دل بادہ مسرت میں سر شار تھا۔ لیکن وقت کا کارواں یہ درد انگیز نظارہ دیکھ کر حیران تھا ۔ حیرت میں دیکھتا چلا گیا اور سوچنے لگا کیا وہ وقت پھر پلٹ کر نہیں آسکے گا؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
ردائے لالہ و گل پردہء مہ و انجم
جہاں جہاں وہ چھپے ہیں عجیب عالم ہے